Friday, February 8, 2008

Story of a Mother

قتباس بشکریہ:خاور بلال اور ماہنامہ خواتین میگزین لاہور۔ جنوری08


میرے خاوند فوج میں رہے ہیں۔ اس وجہ سے دونوں بیٹوں نے بھی فوجی ملازمت اختیار کی۔ بڑے بیٹے نے اپنی جوانی اور صلاحیتوں کو فوج میں استعمال کیا اور اب ریٹائر ہوکر اپنا کاروبار سنبھال رکھا ہے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ ہمیں ایک دعوت نامہ ملا کہ کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ہے، اس میں شرکت کریں۔ میرے چھوٹے بیٹے کو کمیشن مل رہا تھا، اس لیے میں نے بھی جانے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم تمام گھر کے افراد اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ خوشی خوشی کاکول روانہ ہوگۓ۔ ایک کھلے میدان میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئ۔ نوجوان جب پریڈ کرتے تو ان کے قدموں کی چاپ سے دھرتی کانپ کانپ اٹھتی۔ انکے جوش و خروش اور جذبے کو دیکھ کر میرے منہ سے بے ساختہ دعائیں نکلتیں۔ پریڈ ختم ہوئ۔ میرا پیارا بیٹا فوجی افسر بن گیا۔ اس کے کندھے پر اسٹار لگادیا گیا۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئ کہ اب میرا بیٹا ملک و ملت کے دشمنوں کے لیے ننگی تلوار ثابت ہوگا۔

رات کو ڈنر تھا، ہم سب شریک ہوۓ۔ ڈنر خاصا پر تکلف تھا۔ ہم سب اپنے پیارے بیٹے کو دیکھ کر نہال ہوۓ جاتے تھے۔ ڈنر میں نوجوان لڑکیاں بھی مدعو تھیں جو بڑی بے تکلفی سے لڑکوں سے پیش آرہی تھیں۔ کاکول کے ایک انسٹرکٹر میرے بڑے بیٹے کے دوست ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ان کا آنا جانا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا؛ یہ لڑکیاں کون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ان افسران کی گرل فرینڈز ہیں۔ مجھے یہ سن کر سخت تعجب ہوا۔ میں اپنے بیٹے کو معصوم سمجھتی تھی، مجھے گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ایسے معصوم لڑکے جو ماں باپ سے بھی بات کرتے ہوۓ نگاہیں نیچی رکھتے ہیں، ایسی بے باک اور ماڈرن لڑکیوں سے یوں گھل مل سکتے ہیں۔ میں نے بیٹے سے پوچھا؛ بیٹا یہ تمہارے دوست کسیے ہیں؟ اس نے حیرت سے پوچھا؛ کیوں امی، بہت اچھے ہیں۔ یہ تو ہماری گرل فرینڈز ہیں۔ میں نے اس کے انسٹرکٹر کی طرف دیکھا۔ وہ میری حیرت کو سمجھ گیا۔ اس نے بتایا، میڈم ہم انہیں یہاں اچھے فوجی بنانے پر پوری توجہ دیتے ہیں اور یہ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ ہماری فوج کا شمار اعلٰی فوجوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے چند اصول بنا رکھے ہیں، اگر کوئ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم اسے نکال دیتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئ دوران تربیت جھوٹ بولے، چوری کرے یا افسروں کی حکم عدولی کرے تو اسے فوراً نکال دیا جاتا ہے۔ اگر ان اصولوں پر کاربند رہے تو اچھا افسر بن کر نکلتا ہے۔ رہا ذاتی کردار کا مسئلہ تو ہم انہیں لڑکیوں سے میل ملاپ رکھنے اور ان کی تفریح کے معاملات میں بالکل دخل نہیں دیتے۔ ہم ان کے ذاتی معاملات اور آزادی میں خواہ مخواہ مخل ہونا پسند نہیں کرتے۔

دعوت ختم ہوئ۔ ہم ہنستے ہنساتے گھر لوٹ آۓ اور پھر دنیا ک دھندوں میں یہ دعوت آہستہ آہستہ میرے ذہن سے محو ہوگئ۔ میں جانتی تھی اور گھر کے ماحول کے مطابق اس کی تربیت بھی یہ تھی کہ وہ شہادت کی طلب رکھتا تھا۔ کبھی کبھار میرے ذہن میں وہ دعوت کا واقعہ یاد آجاتا تو میں سوچتی کاکول اکیڈمی جیسے اصول تو ہندوؤں نے بھی اپنا رکھے ہیں تو پھر ان میں اور ہمارے بیٹے میں کیا فرق رہا۔ پھر خیال آتا میرا بیٹا مسلمان ہے، اسلام کا سپاہی ہے۔ نہ جانے پھر یہ خیال کیوں آتا کہ اسلام کا سپاہی شراب نہیں پیتا۔ غیر محرم عورتوں سے بے تکلف میل جول نہیں رکھتا۔ نماز پڑھتا ہے اس کے مذہبی اصول ہیں، وہ شہادت کو ابدی زندگی سمجھتا ہے۔

وقت گزرتا رہا۔ ملک میں دہشت گردی کے نام پر جنگ چھیڑ دی گئ۔ وہ فوجی جنہیں کفر سے لڑنا تھا، جو اپنا خون اپنے ملک و قوم اور مذہب کے لیے بہانا چاہتے تھے، انہیں اپنی قوم سے لڑا دیا گیا۔ ہماے مجاہد بیٹوں کو مجاہدوں کے مقابلے پر لاکھڑا کردیا گیا۔ ہمیں علم ہی نہ ہوسکا کہ کب ہمارے مجاہد بیٹے کو وزیرستان کے علاقے میں فوجی آپریشن کے لیے بھیجا گیا اور میں آج تک اس بات پر پریشان ہوں کہ میرے بیٹے نے وہاں جانے سے انکار کیوں نہ کیا۔ وہ نوکری پر لعنت بھیج کر واپس کیوں نہ آگیا۔

ہمارے پاؤں سے اس وقت زمین کھسک گئ، جب آرمی والے اس کی میت لے کر ہمارے دروازے پر آۓ، ہمیں کہا گیا کہ آپ کا بیٹا وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آرمی ایکشن کے دوران شہید ہوگیا ہے۔ میں سن کر تڑپ گئ۔ میری دنیا اندھیر ہوگئ۔ بیٹے کی میت سامنے پڑی تھی اور میں رو بھی نہیں سکتی تھی۔ میں تو اس امید پر تھی کہ میرا بیٹا اپنے وطن، اپنے دین کی خاطر کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہوگا۔ یہ تو اپنوں سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ میں اسے شہید کیسے کہہ دوں۔ اس وقت مجھے کاکول اکیڈمی کی دعوت کا خیال آگیا تو غصے سے اٹھ کھڑی ہوئ اور بیٹے کی میت کے ساتھ آۓ ہوۓ کرنل کا گریبان پکڑ لیا اور مجھے یاد نہیں کہ اس وقت میرے منہ سے کیسے کیسے الفاظ ادا ہوۓ۔ ہوش آیا تو ہسپتال میں تھی اور بڑا بیٹا سرہانے بیٹا تھا۔ میرے بیٹے کی میت دفنا دی گئی تھی اور پھر اس وقت سے میں کرب میں مبتلا ہوں۔ میں نے تو اسے مجاہد بننے کی تربیت دی تھی اور شہادت کا جذبہ ہی اسے فوج میں لے گیا تھا۔ مجھے کیا علم تھا کہ یہ ظالم لوگ میرے بیٹے کی دنیا اور آخرت تباہ کردیں گے۔ کیا وہ مجاہد بنا؟ کیا وہ شہید ہے؟ بزرگان دین مجھے فتویٰ دیں۔

Blogged with Flock

No comments: